سدھو کے اب ریلیز ہونے والے گانے ’سیکشن 12‘ میں ایسا کیا ہے جس پر بحث جاری ہے؟
سدھو موسے والا اپنے گانوں میں قانونی شقوں سے متعلق اصطلاحات کا ذکر کرتے تھے اور ان پر تنقید بھی کیا کرتے تھے، وہ قانون اور اس سے فائدہ اٹھنے والے سماج کے خلاف اپنے گانوں کو ترتیب دیتے اور ان پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔
ان کے ایک گانے کا نام 295 ہے جو تعزیرات ہند کی ایک دفعہ ہے۔ واضح رہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 295 (اے) ان لوگوں پر لاگو ہوتی ہے جو مذہبی جذبات بھڑکاتے ہیں۔
اس گانے میں انھوں نے نام نہاد مذہبی رہنماؤں اور سیاسی رہنماؤں پر طنز کیا تھا اور اُن کا یہ گانا زبان زدِ عام ہوا، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سائٹس پر اس گانے نے سدھو کی شہرت کے جھنڈے گاڑے۔
اس گانے میں انھوں نے کہا تھا کہ ’اگر آپ سچ بولیں گے تو آپ کو 295 اے کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر آپ ترقی کی راہ پر چلنے کی کوشش کریں گے تو نفرت آپ کا راستہ روکے گی۔‘
اسی طرح اب اُن کے قتل کے بعد ریلیز ہونے والے اُن کے گانے میں انھوں نے شروعات میں سیکشن 12 کے بارے میں بات کی ہے۔
https://www.toprevenuegate.com/ezkcysfs?key=180a436ccd23c0b2a8e7c0bae8c0d353
اس گانے میں سدھو سیکشن 12 کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اوہ، ہماری زبان کی بندش یا ہاتھ کو بدلہ لینے سے روکنے کے لیے یہ جو سیکشن 12 کا استعمال کیا گیا ہے۔
’یوں کہہ لو کے ہمارے کندھوں پر یہ بندوقیں نہیں میتیں لادھ دی ہیں اور ہمارے ہاں تو بدلہ ایک تہوار کی مانند ہوتا ہے جب تک کوئی اپنا بدلہ نہ لے لے تب تک وہ اپنے گھر واپس نہیں آتا۔‘
سوشل میڈیا پر لوگوں کی مختلف آرا ہیں کہ سدھو موسے والا نے اس گانے میں دفعہ 12 کا ذکر کیوں کیا اور اس کا کیا مطلب ہے۔
کچھ لوگ اسے غیر قانونی ہتھیاروں کے معاملے میں استعمال کرنے کے لتے آرمز ایکٹ کی ایک دفعہ بھی کہہ رہے ہیں۔
گانے کی ریلیز کے بعد سدھو موسے والا کے والد بلکور سنگھ نے اس سیکشن کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا۔
مئی 2020 میں سدھو موسیوالا پر آرمز ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جس میں سدھو پر آرمز ایکٹ کی دفعہ 25، 29 اور 30 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
جولائی 2020 میں سدھو موسے والا نے اپنا گانا ’گبھرو تے کیس جیڑا سنجے دت تے‘ بھی ریلیز کیا تھا۔
کچھ سوشل میڈیا صارفین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ دفعہ 12 برطانیہ یا کینیڈا کے قانون کے بارے میں بھی ہو سکتی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک جاننے والے نے یہ بھی بتایا کہ اس کا تعلق سدھو موسے والا کے کسی کے ساتھ کاروباری معاہدے سے بھی ہوسکتا ہے۔
وکیل جسپال سنگھ منجھپور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سدھو نے صرف ایک بار اپنے گانے میں ’سیکشن 12‘ کا استعمال کیا ہے۔ اس بارے میں زیادہ وضاحت نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تعزیرات ہند کی دفعہ 12 کے مطابق آئی پی سی میں جہاں کہیں بھی ’عوامی‘ کا استعمال کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’آئین ہند کی دفعہ 12 کے مطابق عام حالات میں ہر ریاست کی قانون ساز اسمبلی اور مرکز کے زیر انتظام علاقہ حکومت ہند کے ماتحت ہوتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آرمز ایکٹ کی دفعہ 12 ایک جگہ سے دوسری جگہ ہتھیاروں کی نقل و حرکت پر پابندی سے متعلق ہے۔‘
سدھو موسے والا کے بہت سے گانوں میں وہ ایک خاص تناظر میں اپنے ’دشمنوں‘ یا ’ساتھیوں‘ کا ذکر ملتا ہے۔
سدھو کی موسیقی کو قریب سے جاننے والے ایک شخص نے بتایا کہ ’یہ گانا ایک خاص سیاق و سباق میں بھی ہو سکتا ہے اور اس کے بارے میں مختلف آرا بن رہی ہیں جس کے بارے میں کہنا مشکل ہے کہ یہ صحیح ہے یا نہیں۔‘
اس گانے میں سدھو موسے والا کے ساتھ سکندر کاہلو بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے ریپ میں کہتے ہیں کہ ’جسم چاہے جائے پچھتاوا نہیں، بے ضمیر انسان نہیں ہونا چاہیے۔‘
یہ جملہ اسی طرح کا ہے جو دمدمی ٹکسال کے سابق سربراہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا۔
یہ جملے تھے: ’میں جسم کی موت کو موت نہیں، ضمیر کی موت کو موت کہتا ہوں۔‘
بھنڈرانوالے کی تقریر کا یہ حصہ ان کے پوسٹروں، ٹی شرٹس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں کئی گاڑیوں، بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوا پایا جاتا ہے
سدھو موسے والا کے گانوں میں ہتھیاروں کا ذکر عام رہا ہے۔ اس وجہ سے کئی سماجی کارکنوں نے وقتاً فوقتاً ان کی مخالفت بھی کی ہے۔
Comments
Post a Comment